نام نہاد مسلمان ( تحریر سعید الرحمن رانجھا)

وبائے عشق
عنوان: نام نہاد مسلمان
کالم نگار: سعیدالرحمان رانجھا

اپنے پچھلے کالم میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو مدِ نظر رکھتے ھوئےاھلِ عرب کی مبینہ اسرائیلی قربت پر قلم کشائی کرنے کی کوشش کی۔ عرب اسرائیل کشیدگی دنیا کے لئے کوئی نئی بات تو نھیں البتہ موجودہ اسرائیلی جارحیت اور درندگی کی انتہاء اب تک غزہ حماس اور مشرقی بیت المقدس میں موجود دھائیاں دیتے 200 سے زائد نہتے اور مظلوم فلسطینیوں جن میں اپنی کم عمری کو اپنی بے بسی بتاتے آنکھوں میں بڑے بڑے خواب سجائے درجنوں معصوم بچوں کی جانیں .

لے چکی ھے- جس پر بدستور عالمی برداری،اقوام متحدہ اور یورپی یونین خاموش تماشائی بنے اپنی زبانوں پر سرد مہریں لگائے بیٹھے ھیں-کجا یہ کہ جوبائیڈن اسرائیل کے اس انسانیت کے قتلِ عام پر کچھ مذمتی بیان جاری کرتے امریکہ نے تو یہودیوں کی 763 ملین ڈالر کی دفاعی مدد کی ہے۔ ماضی کے کچھ کونے کھدروں کو کریدنے کی کوشش کرتا ہوں تو

یہ بات ھے 1948ء کی جب اقوام متحدہ میں پیش کی گئی ایک قرارداد کے پیشِ نظر ١٠ کے مقابلے میں ٣٣ ممالک کی حمایت سے یہودیوں کی سر زمین اسرائیل دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی جس کی رو سے مغربی یروشلم اسرائیل کا جبکہ مغربی یروشلم فلسطین کے دارالحکومت قرار پائے-اس قرارداد کے بعد کئی زبردستی بے دخل کئے گئےفلسطینی نقل مکانی کر کہ شیخ جراح اور مشرقی فلسطین میں آ کر بسنا شروع ھو گئے- شیخ جراح اس علاقے کو کہتے ھیں جہاں موجودہ حماس اور مشرقی یروشلم ھے .

اس علاقے کو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة الله تعالى کے ایک ذاتی معالج شیخ جراح کی نسبت سے جانا جاتا ھے-اسرائیلی یہودی صرف اس پر خوش نھیں ہوئے بلکہ وہ پورے فلسطین جس میں مسجد اقصی اور شیخ جراح کا علاقہ شامل ہے پر قابض ہونا چاہتے تھے
جس پر اہلِ عرب اور اسرائیل میں 1948ء کے بعد کئی چھڑپیں ھوتی رہیں لیکن 1967ءمیں فلسطینیوں نے عرب کی مدد سے پورے 7دن اسرائیل سے ایک تاریخی جنگ شاہ فیصل بن عبدالعزيز کی زیرکمان لڑی جس میں عربوں کو تیل کی بے پناہ طاقت ہونے کے باوجود شکستِ فاش سے دوچار ھونا پڑا۔

اب ماضی کی کتاب کے اوراق کو تیزی سے آگے پلٹیں اور موجودہ دور کی بات کریں تو اب بھی کئی یہودی آباد کاروں کا دعوٰی ھے کہ شیخ جراح میں موجود جملہ زمینیں 1948ء سے قبل یہودیوں کی ملکیت تھیں اور وہ پورے فلسطین کو بشمول بیت المقدس کے یہودیوں کی سر زمین سمجھتے ہیں-اسرائیلی عدالت نے برسوں کے اس دعوی کو حال ھی میں رمضان المبارک سے چند روز قبل تسلیم کرتے ھوئے فیصلہ سنا دیا-عدالت کے اس تاریخی فیصلے کے بعد یہودیوں کی آمد اس علاقے میں شروع ھو چکی ہے اور انہوں نے کئی فلسطینی مکانات پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔ان نئے یہودی آباد کاروں کی حفاظت کیلئے درندہ صفت اور ظالم اسرائیلی فوج اور فورسز کی بھاری نفری وہاں موجود ھے۔

فلسطینیوں کے ساتھ رمضان کے شروع میں چھڑپیں معمول تھیں لیکن شب قدر کو مسجد اقصی پر اسرائیلی حملے کے بعد اس کشیدگی نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے کہ اسرائیل نے کئی جدید تکنیکی ایٹمی جنگ کی صلاحیت یافتہ میزائل بھی شیخ جراح اور غزہ پر داغ دیئے- ماضی کے ان واقعات کو ٹٹولتے اپنی چشم دیدہ کو کھول کر حالات حاضرہ کی اسرائیلی بربریت پر تبصرہ کامقصد مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کےاپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی حمایت کےدوٹوک مؤقف کی تائید کرنا تھا-اختلافات اپنی جگہ لیکن موجودہ حکومت اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا فلسطین کے حق میں دو ٹوک مؤقف اور نام نہاد مسلمانوں کی اسلامی تنظیمی کانفرنس کے حالیہ منعقدہ اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت قابل ذکر ہے-

آج فواد چوہدری نے مظلوم اور جنگ کےسائے تلے موجود نہتے فلسطینی بھائیوں کیلئے کووڈ-19 کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر خوراک و طبی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیاہے-پاکستان کے علاوہ ترکی،سعودیہ،ایران اور کویت نے بھی اپنا دو ٹوک موقف پیش کرتے ہوئے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کروانے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے پر زوردیا- مسلمان ہونے کا یہ سب سے کمزور ترین درجہ ہے کیونکہ اب امت مسلمہ جس قدر زوال کا شکار ہے اس کے راہنماؤں میں نہ تو اب عمر ابن الخطاب ہیں اورنہ ہی صلاح الدین یوسف- پاکستان کے اس معاملے پر انتہائی اہم کردار ادا کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بھی مسئلہ کشمیر پر فلسطین سے ملتی جلتی بھارتی نسل کشی اور کشیدگی کا شکار ہو سکتا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 5 اگست2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے کے بعد بھارتی فوج اور فورسز نےکشمیر یوں کی نسل کشی اور مظالم ڈھانے شروع کر دئے-کئی بھارتیوں نے یہودی آباد کاروں کی طرح بےگناہ کشمیریوں کے مکانات اور زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی کی اور انکا قتل عام جاری ہے-بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے اسرائیل-فلسطین معاملے پر اسرائیل کے موقف کی بھرپور حمایت کی ہے کیونکہ اسے امریکہ اسرائیل لابی کی مستقبل قریب یا بعید میں اشد ضرورت پڑے گی-

اس ساری صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو نہ صرف فلسطینیوں کی حق حمایت میں اہم کردار ادا کرنا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر پر اسی لابی کا سامنا بھی کرنا ہے-27 ممالک کی یورپی یونین تو ویسے بھی پاکستان کےجی-ایس-پی مقام کو ختم کرنے کیلئے قرارداد پیش کرچکی ہے- لہذا پاکستان اور اسکی خارجہ پالیسی متعین کرنے والوں کو دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان مستقبل میں مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف کی حمایت کیلئے عالمی برادری میں تنہا تو نہیں کھڑاہو گا؟

اپنا تبصرہ لکھیں