District headquarter hospital mandi bahauddin

منڈی بہاؤالدین کی عوامی صحت کا بحران: حقائق، محرومیاں، اور ممکنہ حل

صوبہ پنجاب کی قیادت اور منڈی بہاؤالدین کی عوامی صحت کا بحران: حقائق، محرومیاں، اور ممکنہ حل

پنجاب، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، ہمیشہ سے سیاسی، اقتصادی، اور سماجی طور پر اہم رہا ہے۔ لیکن یہاں کے مسائل بھی اتنے ہی پیچیدہ ہیں، جن میں عوامی صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی اولین حیثیت رکھتی ہے۔ مریم نواز، جو اس وقت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھال رہی ہیں، اس صوبے کی قیادت کر رہی ہیں، اور ان سے وابستہ توقعات بلند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سیاسی بصیرت اور تحریک نے مسلم لیگ ن کو تقویت بخشی ہے، لیکن عوامی مسائل، خاص طور پر صحت کے بحران جیسے ڈینگی کی بڑھتی تعداد، ایک سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہیں۔

منڈی بہاؤالدین میں ڈینگی کی وبا: ایک نظر

ضلع منڈی بہاؤالدین کی عوام ایک سنگین وبا کا سامنا کر رہی ہے—ڈینگی وائرس، جو کئی سالوں سے صوبہ پنجاب کو پریشان کر رہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ وبا زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے۔ پنجاب کے ایک چھوٹے سے ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہر روز نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں، جس اس وبا کی شدت سے بڑہنے کی سنگینی بھی واضح ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جو وسائل سے محروم ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آدھے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے، کیونکہ صاحبِ حیثیت افراد، جن کے پاس وسائل ہیں، اپنی مرضی سے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔

حکومتی اداروں کی لاپرواہی اور عوامی ردِعمل

عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات سے متفق ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانا اکثر ایک اذیت بن جاتا ہے۔ جب مریض سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں جس لاپرواہی اور بد انتظامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ان کے لیے ایک اضافی مشکل بن جاتا ہے۔ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ عوامی سہولیات پر انحصار کرتے ہیں؟ یہ سوال نہایت اہم ہے، کیونکہ اس کا جواب حکومت کی ترجیحات کو عیاں کرتا ہے۔

انتظامیہ کی کارکردگی پر بات کریں تو صورتِ حال مزید مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ منڈی بہاؤالدین جیسے علاقوں میں جہاں عوامی شعور اور آگاہی کی کمی ہے، وہاں ڈینگی جیسے مسائل کے خلاف آگاہی مہمات نہ چلانا ایک ناقابلِ معافی غلطی ہے۔ حکومتی دعوے اور اقدامات نہ صرف غیرموثر ہیں بلکہ ان میں ایک واضح ترجیحی خلا بھی نظر آتا ہے۔ کیا یہ انتظامی کوتاہی ہے یا جان بوجھ کر غفلت برتی جا رہی ہے؟

تشہیری مہمات بمقابلہ عوامی خدمت

منڈی بہاؤالدین کی انتظامیہ کی توجہ کا محور، بدقسمتی سے، عوامی خدمت کی بجائے خودنمائی اور تشہیر میں زیادہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق، وہاں کی انتظامیہ ریڑھی بانوں سے بھاری جرمانے وصول کر رہی ہے تاکہ ان کی ریڑھیوں پر حکومتی تشہیر کے فلیکسز لگائے جا سکیں، جنہیں ’ستھرا پنجاب‘ کے عنوان سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ یہ فلیکس، اگرچہ بظاہر صفائی کی مہم کا حصہ ہیں، لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی اپنی تشہیر کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

جب عوام صحت کے سنگین مسائل سے دوچار ہوں اور حکومتی وسائل محض خودنمائی کے لیے استعمال ہوں تو یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ عوام کے حقوق اور ان کے بنیادی مسائل کب حل ہوں گے؟

ڈینگی کے خلاف جنگ میں ناکام حکمت عملی

ڈینگی جیسی وبائیں صرف طبی مسئلہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات کی ناکامی کی علامت بھی ہیں۔ جب حکومت کی ترجیحات عوامی خدمت سے ہٹ کر ذاتی مفادات اور تشہیری مہمات پر مرکوز ہوں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ منڈی بہاؤالدین میں نہ کوئی مؤثر سپرے ہو رہا ہے، نہ عوام کو ڈینگی سے بچاؤ کی تدابیر بتائی جا رہی ہیں، اور نہ ہی کوئی جامع آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ صورتِ حال ان لوگوں کے لیے ایک المیہ ہے جو سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔

معاشرتی اور معاشی اثرات

اس بحران کے اثرات صرف صحت تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ ایک سماجی اور معاشی مسئلہ بھی ہے۔ جب لوگ بیمار ہوں گے، تو نہ صرف ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو گی، بلکہ ان کی زندگی کا معیار بھی گرتا چلا جائے گا۔ ریڑھی بانوں پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالنا اور ان سے بھاری جرمانے اور ستھرا پنجاب کے نام پر 18000 روپے فیس وصول کرنا جسے ممکنہ طور سرکاری خزانہ میں تو جمع نہیں کروایا جا سکے گا۔

مقامی ٹھیکیداروں سے ملکر کرپشن کی ایک نئی لہر ضرور کھولی جا سکتی ہے۔ کیا مقامی انتظامیہ جو اس وقت حکومتی پروردی میں چل رہی جس کا عوامی نمائندگی سے دور دور کوئی واسطہ نہیں کیونکہ پنجاب میں تو بلدیاتی الیکشنز ہی نہیں کروائے جا رہے۔ اس مسئلے کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو پہلے ہی مالی مشکلات سے دوچار ہے، اسے حکومتی بے حسی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

مستقبل کے لیے ممکنہ حل

1. مؤثر عوامی صحت کا نظام: سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ صحت کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں طبی سہولیات کو بہتر بنایا جائے، تاکہ عوام ان پر اعتماد کر سکیں اور انہیں پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔

2. آگاہی مہمات کا انعقاد: ڈینگی جیسے مسائل کے حل کے لیے عوامی آگاہی بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ میڈیا اور مقامی سطح پر مہمات کا آغاز کرے، جس میں لوگوں کو ڈینگی سے بچاؤ کے طریقے اور علاج کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔

3. شفافیت اور احتساب: حکومتی وسائل کے استعمال میں شفافیت ہونی چاہئے۔ انتظامیہ کو اپنے وسائل کو عوامی خدمت کے لیے استعمال کرنا چاہئے، نہ کہ ذاتی تشہیر کے لیے۔

4. بنیادی سہولیات کی فراہمی: ہر ضلع، خاص طور پر کم ترقی یافتہ علاقوں میں، بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ منڈی بہاؤالدین جیسے علاقوں میں مؤثر طبی امداد اور سپرے مہمات کا آغاز کیا جانا چاہئے۔

5. محکمہ صحت کی تنظیم نو: محکمہ صحت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ضرورت ہے، جس میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہوں اور عوامی مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔

منڈی بہاؤالدین میں ڈینگی کی وبا اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی غفلت ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف صحت کے شعبے کی ناکامی کا غماز ہے بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام کی فلاح و بہبود کتنی اہم ہے۔ عوام کا یہ حق ہے کہ انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور تشہیری مہمات سے نکل کر عوامی خدمت کی طرف توجہ دے۔

مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ اس سوال کا جواب حکومت کو آج دینا ہوگا، تاکہ کل کے احتساب سے بچا جا سکے۔ عوام کو ان کا حق دیا جائے، اور حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

تحریر: محمد نواز ضیاء

اپنا تبصرہ لکھیں