lota

تاریخِ لوٹا (تحریر: محمد ندیم، ڈھوک کاسب)

تاریخِ لوٹا (آغاز لوٹا اصطلاح عطا حسین میر کاشمیری 1945)

لوٹا ، باتھ روم کا اہم آلہ ہے اور صفائی کے عمل کا مکمل گواہ اور حصہ دار ہے۔ اس کو باتھ روم میں مکمل طہارت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔یہ پاکستان میں لوٹے بنانے والی فیکٹری میں تیار کیے جاتے ہیں تاہم لوٹے باہر کے ممالک سے بھی منگوائے اور تیار کروائے جاتے ہیں۔

لوٹے کی ایک خاص قسم پاکستان میں پائی جاتی ہے ۔ ایسے لوٹے فیکٹری میں نہیں بلکہ اسمبلیوں میں تیار کیے جاتے ہیں ۔لوٹے اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتے بلکہ ان کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے ۔

متحدہ ہندوستان کے علاقے پنجاب میں سرگودھا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے پہلے لوٹے نے اپنی شناخت ظاہر کی ۔ان کا نام شیخ محمد عالم (ڈاکٹر لوٹا) تھا جو سرگودھا میں 1887 میں پیدا ہوئے ۔پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ انہوں نے لاہور اور سرگودھا میں پریکٹس کی، اپنا نام چمکانے کے لیے سیاست میں حصہ لیا سیاست میں آنے کے بعد 1945 تک انہوں نے ہر پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔

ان کی پارٹیاں بدلنے کی بدولت شورش کاشمیری کے مطابق زمیندار کے ملازم اور ریڈیو لاہور کے لیے پنجابی خبریں تیار کرنے والے عطا حسین میر کاشمیری تھے جنہوں نے 1945 میں ڈاکٹر عالم کے لیے لوٹا لوٹا کی پھبتی کسی۔ڈاکٹر عالم کے لیے یہ لفظ عرف عام ہو گیا۔ان کا استقبال اکثر لوٹوں سے کیا جاتا جس پر ان کا نام ڈاکٹر لوٹا پڑ گیا۔

تاریخ میں دوسرا مشہور لوٹا مصطفیٰ کھر تھا جس نے بطور لوٹا مقبولیت حاصل کی ۔لیکن لوٹے شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے میں آئی جے آئی کا بہت بڑا کردار تھا ۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف اس دور میں ایک اتحاد بنایا گیا ۔اس اتحاد میں رنگ رنگ کے لوٹے بھرتی کیے گئے ۔

ملک میں لوٹوں کی وافر مقدار تیار کی گئی جن کو اٹھا کر ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاتا پھر ان کی جگہ بدل دی جاتی ۔ حالیہ برسوں میں لوٹے کی اصطلاح کو الیکٹیبلز سے بدلنے کو کوشش کی گئی جو لوٹوں کی جگہ نا لے سکی ۔ اگر اسمبلی کے لوٹوں اور باتھ روم کے لوٹوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ معنی خیز نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ اسمبلی کےلوٹے گندگی کی علامت
جبکہ باتھ روم کے لوٹے صفائی کی علامت ہیں ۔

تحریر:
محمد ندیم اختر (ڈھوک کاسب)

اپنا تبصرہ لکھیں