ہم سب کو الحمدللہ کسی نہ کسی حد تک قرآنی آیات اور دعائیں یاد ہوتی ہیں جو ہم اپنی نمازوں میں اور اس کے علاوہ بھی زبانی پڑھتے رہتے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ اس حوالے سے ہم کسی جگہ کوئی غلطی متواتر کرتے چلے آرہے ہوں لیکن ہمیں اس کا ادراک نہ ہو۔
ہم میں سے بیشتر کو اپنے بچپن سے ہی خاصی آیات اور دعائیں زبانی یاد ہوتی ہیں لیکن بہت ممکن ہے کہ ہم میں سے کچھ افراد اپنے بچپن یا لڑکپن کی یادداشت پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہوں اور اپنی مصروفیات کے پیش نظر یا کسی اور وجہ سے کبھی یہ تصدیق نہ کرسکے ہوں کہ آیا ہم جو قرآنی سورتیں اور مسنون دعائیں اپنی نمازوں میں یا ویسے بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ عین اسی طرح سے ہی ہیں جس طرح قرآن پاک یا احادیث میں تحریر ہیں۔
بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی یادداشت کے مطابق وہ آیات اور دعائیں پڑھتے رہتے ہیں لیکن کہیں کہیں زیر، زبر، پیش کی غلطی مستقل سر زد ہو رہی ہوتی ہے، جس کا ہمیں احساس نہیں ہوپاتا کیوں کہ ہم نے یا تو ازبر ہوجانے والی سورتوں یا دعاؤں میں سے کچھ کو پڑھ کر نہیں دیکھا ہوتا یا اگر دیکھ کر تلاوت کی بھی ہو تو بہت ممکن ہے کہ اعراب کی ان بظاہر معمولی غلطیوں پر توجہ نہ دے سکے ہوں کیوں کہ اکثر ایسا بھی ممکن ہے کہ ہم دیکھ کر پڑھتے وقت بھی وہی غلطی دہرا رہے ہوتے ہیں جو ہمارے ذہنوں میں پختہ ہوچکی ہوتی ہے۔
زیر، زبر یا پیش کی ہونے والی غلطیاں شاید معمولی نوعیت کی لگتی ہوں لیکن یہ اکثر الفاظ کا مطلب ہی بدل کر رکھ دیتی ہیں جو ایک بہت ہی خطرناک بات ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کی ذات غفور و رحیم ہے اور اس کی رحمت سے بعید نہیں کہ وہ زبان سے ناواقف اپنے بندوں کو اس پر معاف بھی فرمادے لیکن ہمارا فرض بہرحال یہی ہے کہ ہم سورتوں و دعاؤں کے معاملے میں بہت محتاط رہیں۔
مثال کے طور پر سورہ فاتحہ میں لفظ اَنْعَمْتَ آتا ہے جس سے مراد ہے کہ تو نے انعام کیا۔ اب اگر کوئی غلطی سے اسے اَنْعَمْتُ یعنی ت کو زبر کے بجائے پیش کے ساتھ پڑھ دے تو اس کا مطلب ہوجائے گا کہ میں نے انعام کیا۔ اس طرح اس بظاہر معمولی غلطی کی وجہ سے پورے لفظ کا مطلب ہی الٹ ہوجائے گا۔ ایسی بڑی غلطیاں عبادت کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ گناہ کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔
اس لیے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو قرآنی سورتیں اور دعائیں ہمیں زبانی یاد ہیں ہم قرآن اور دعاؤں کی مستند کتابیں کھول کر اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ وہ ہم اپنی نمازوں میں یا اس کے علاوہ عین اسی طرح پڑھ بھی رہے ہیں یا نہیں اور اگر ہم یہ پائیں کہ ہم ان میں کوئی غلطی کر رہے تھے تو اس کی اصلاح کرلیں اور ان آیات و دعاؤں کو ایک بار پھر اچھی طرح یاد کرلیں تاکہ ہم معانی تبدیل کردینے کے گناہ سے بھی بچ جائیں اور انہیں پڑھنے کے مکمل ثواب کے حصول کے بھی اہل ہوجائیں۔
تلاوت کی ایک اور غلطی بھی لوگوں سے اکثر سر زد ہوجاتی ہے وہ تشدید کو کہیں کہیں نظر انداز کردینے کی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جس حرف پر تشدید ہو اسے دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے لیکن اگر ہم غور نہ کر رہے ہوں اور کسی حرف پر تشدید ہونے کے باوجود اسے بغیر تشدید کے یعنی ایک ہی مرتبہ پڑھ کر آگے بڑھ جائیں تو ہماری یہ حرکت اس پورے لفظ کا مطلب تبدیل کرسکتی ہے اور گناہ کا باعث بھی بن سکتی ہے لہٰذا اس حوالے سے بھی احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر کسی آیت میں لفظ نَزّلَ ہے یعنی اس میں ز پر تشدید ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس نے نازل کیا لیکن اگر اس لفظ کو تشدید کے بغیر یعنی نَزَلَ پڑھ دیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ نازل ہوا لہٰذا اس طرح اس لفظ کا مطلب ہی بدل جائے گا جو گناہ کا باعث ہوگا۔
قرآنی آیات کی تلاوت کے دوران اگر کسی ساکن حرف کو متحرک پڑھ دیا جائے یعنی مثال کے طور پر اگر کسی حرف پر جزم ہو اور وہ زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس طرح بھی بہت بڑی غلطی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے جو گناہ کا باعث ہے۔ مثلاً خَلَقْنَا میں ق پر جزم ہے جسے ساکن کے طور پر پڑھنا ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے ہم نے پیدا کیا لیکن اگر اس ق کو متحرک یعنی زبر کے ساتھ خَلَقَنَا پڑھ دیا جائے تو اس کا مطلب ہوجائے گا اس نے پیدا کیا۔ اس طرح اس لفظ کا مطلب بدل جائے گا اور ایسا کرنا گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
کسی حرف کے ساتھ الف ہو تو اس حرف کو تقریباً ایک سیکنڈ تک کھینچ کر پڑھا جاتا ہے لیکن اگر صرف زبر ہو تو اسے کھینچا نہیں جاتا۔ تلاوت کے دوران کسی حرف کو گھٹا اور بڑھا کر پڑھنے کی غلطی بھی اکثر کی جاتی ہے جو مطلب کی تبدیلی اور نتیجتاً گناہ کا باعث بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ خَلَقَ کا مطلب ہوتا ہے اس نے پیدا کیا لیکن اسے پڑھنے کے دوران اگر غلطی سے خَلَقَ کے قاف کو کھینچ کر ادا کردیا جائے یعنی ق کے بعد الف کا اضافہ کرکے خَلَقَا پڑھ دیا جائے تو پھر اس کا مطلب تبدیل ہوکر ‘ان دونوں نے پیدا کیا’ ہوجائے گا۔
ہمیں تلاوت کے دوران وقوف کی بھی پہچان ہونی چاہے یعنی کہاں ٹھہرنا ہے اور کہاں پر بغیر رکے آگے پڑھنا ہے اور کہاں کم کہاں زیادہ رکنا ہے۔ کیوں کہ کہیں رک جانے اور کہیں نہ رکنے کی وجہ سے بھی معنی بدل سکتے ہیں۔ ان علامتوں کے حوالے سے ناشر کی جانب سے عموماً قران پاک کے نسخے کے آخری صفحات پر رموز اوقاف دیئے گئے ہوتے ہیں جس سے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ کس علامت پر کیا کرنا ضروری اور بہتر ہوتا ہے۔ وہاں سے بھی وقف کی علامتوں کو سمجھا اور ذہن نشین کیا جاسکتا ہے۔
کہیں رکنے یا نہ رکنے سے بات کا مطلب تبدیل ہونا اس مثال کے ذریعے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ہم ایک جملہ کہیں کہ ‘روکو مت جانے دو’ اور روکو کے بعد کوما لگا دیں یعنی کچھ توقف کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ (فلاں کو) روک لو اسے جانے مت دو۔ لیکن اگر ہم روکو مت کے بعد کوما لگائیں یا ٹھہر کر باقی جملہ ادا کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ (فلاں کو) مت روکو اسے جانے دو۔ لہٰذا اسی طرح جب ہم قرآن کی تلاوت کے دوران بھی لازمی رکنے والی جگہوں پر نہیں رکتے یا نہ رکنے والی جگہوں پر رک جاتے ہیں تو اس سے اس بات کا مطلب یکسر تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔
قرأت کے حوالے سے ایک اور بات بھی بہت اہم ہے کہ قرآنی حروف کو ان کے مخارج کے لحاظ سے بھی صحیح طور پر ادا کیا جائے مثلاً جہاں ق ہے تو اسے ک اور جہاں ع ہے تو اسے الف کی آواز میں پڑھنے سے گریز کیا جائے۔ اس سے بھی لفظ کا مطلب بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قلب کا مطلب دل اور کلب کا مطلب کتا ہوتا ہے۔ اسی طرح علیم ہوتا ہے ‘جاننے والا’ لیکن اگر اس لفظ میں ع کی آواز حلق سے نکالے بغیر اسے محض الف کی آواز میں پڑھ دیا جائے تو یہ علیم کی جگہ الیم بن جائے گا جس کا مطلب ہوتا ہے ‘تکلیف دہ’۔
ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم قرآنی حروف کے مخارج پر بھی غور کریں اور ان کی صحیح ادائیگی یقینی بنائیں۔ ویسے تو ہم عربی کے زیادہ تر حروف سے واقف ہی ہیں اور انہیں ماشاء اللہ بجا طور پر ادا کر ہی رہے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اردو اور ہماری دیگر مادری زبانوں میں بھی اسی طرح ادا کیے جاتے ہیں، بس چند ہی حروف ایسے ہیں جنہیں عربی میں درست انداز سے ادا کرنے کیلئے تھوڑی سی توجہ اور محنت درکار ہوتی ہے۔ ان حروف میں ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع اور ق شامل ہیں۔
ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت ویسی ہی کریں جیسا کہ اس کا حق ہے اور اوپر بیان کی جانے والی چند باتوں سمیت تلاوت کے جو دیگر اصول ہیں ان کا بھی خاص خیال رکھیں۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام احتیاط ایک ساتھ اپنا لینا بھی اتنا آسان نہیں اور انہیں سیکھنے سمجھنے میں وقت ضرور درکار ہوگا لہٰذا ہمیں رفتہ رفتہ ہی سہی لیکن ترجیحی بنیادوں پر ان پر دسترس حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔
اس حوالے سے فوری ابتداء تو اس کام سے بھی کی جاسکتی ہے کہ جو سورتیں اور آیات ہمیں زبانی یاد ہیں ہم ان تمام کے بارے میں اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ ہم ان میں کہیں ہجے کی کوئی غلطی تو نہیں کر رہے۔
قرآن پاک کی احسن طور سے تلاوت کرنے کے حوالے سے ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جب ہم دنیاوی علوم کیلئے وقت اور کوشش صرف کرتے ہیں اور ان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو یہ تو پھر اس کبھی نہ ختم ہونے والی آخرت والی زندگی کی فلاح سے متعلق ایک معاملہ ہے جسے ترجیح دینا ہمارا فرض ہے