کیاپاکستانیوں کو چنگان ایلسون کیلئے بھی اون منی اداکرنی پڑیگی؟

ماسٹر موٹرز کے سی ای او کا کہنا ہے کہ حال میں لانچ کی گئی گاڑی ایلسون کی بکنگ صارفین کے شاندار ردعمل کے باعث مجبوراً معطل کردی گئی ہے۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ صورتحال سرمایہ کاروں کو اون منی کے حصول کا ایک اور موقع تو فراہم نہیں کردے گی؟ اور کیا کمپنی اس کا حل نکال پائے گی؟۔ پاکستانی فوری طور پر مشہور ماڈل کی گاڑیاں خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ فی الحال دستیاب ہی نہیں ہیں۔ خریداروں کو بعض اوقات بکنگ کے بعد 6 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ کار جو خریداروں کیلئے گاڑیاں آسانی سے فراہم کرتے ہیں وہ اصل قیمت سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ اس اضافی قیمت کو ’’اون منی‘‘ کہا جاتا ہے۔

ماسٹر موٹرز کے سی ای او دانیال ملک کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف کار انڈسٹری تک ہی محدود نہیں ہے، ہماری معیشت میں بلیک منی (کالا دھن) گردش کررہا ہے اور جہاں بھی غیر حقیقی طور پر قیمتیں بڑھانے کا موقع ملتا ہے اسے وہیں لگادیا جاتا ہے۔ سماء منی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کالا دھن دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

دانیال ملک نے مزید کہا کہ ماسٹر موٹرز نے ایک سی این آئی سی پر ایک کار کی بکنگ کی پابندی سے اون منی پر قابو پانے کی کوشش کی ہے، ہم نے کاروں کی ڈیلیوری کا دورانیہ 4 ماہ تک بڑھنے کے باعث مزید بکنگ معطل کردی ہے، جسے خریدار پسند نہیں کرتے اور اس موقع سے سرمایہ کار فائدہ اٹھانے لگتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کار ساز ادارے اکیلے اون منی کو نہیں روک سکتے، سرمایہ کاروں کو طلب اور رسد کو بگاڑنے سے روکنے کیلئے معیشت کو باضابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔

ماسٹر موٹرز کے سیلز اینڈ مارکیٹنگ ڈائریکٹر شبیر الدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا نئی کار کی فروخت پر 2 لاکھ روپے تک کا ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کا منصوبہ ہے۔ ایف بی آر کا ایک ہزار سی سی تک کی کاروں پر 50 ہزار روپے، ایک ہزار سے 2 ہزار سی سی کی کاروں پر ایک لاکھ روپے اور 2 ہزار سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں پر 2 لاکھ روپے وصول کرے گا۔

کاروں کی دستیابی صارفین کیلئے آسان بنانے سے متعلق سوال پر شبیر الدین نے کہا کہ وہ اپنی گاڑیوں کے پرزے درآمد کرتے ہیں اور ان کی فراہمی میں 4 ماہ درکار ہیں، چار ماہ قبل طلب کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ مجموعی طور پر کم طلب کی وجہ سے مقامی سطح پر پرزوں کی تیاری کارآمد نہیں، پاکستان میں آٹو انڈسٹری درآمدی پارٹس پر زیادہ تر انحصار کرتی ہے۔

پاکستان میں 18 کاریں فی ایک ہزار کی طلب ہے، اس کے مقابلے میں امریکا میں یہ طلب 800 کار تک ہے اور صنعتیں مطلوبہ پرزوں اور مواد کی فراہمی میں خودکفیل ہیں۔ دانیال ملک کے بقول مسلسل اور پائیدار طلب سپلائی چین کو مضبوط بناتی ہے، جب کاروں کی طلب میں اضافے سے لوکلائزیشن ہوگی جو پیداوار کے عمل کو تیز تر بنائے گی

اپنا تبصرہ لکھیں