جہیزکا مطالبہ اور’ڈیڑھ لاکھ‘کی تنخواہ، کیا یہ موازنہ درست ہیں؟

سوشل میڈیا پر جہیز کے خلاف چلنے والی مہم کے جواب میں مردوں کے حقوق اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے پوسٹ کی گئی ایک تصویر وائرل ہو گئی ہے۔

اس تصویر میں آپ زنجیروں میں جکڑے ایک مرد پر ڈیڑھ لاکھ تنخواہ کا بورڈ لٹکتا دیکھ سکتے ہیں جس کی زنجیر دلہن بنی عورت کے ہاتھ میں ہے جو سب کو یہ بتا رہی ہے کہ یہ اس کا پرفیکٹ یعنی بہترین دولہا ہے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تصویر کچھ الگ کرنے کی خواہش رکھنے والے جوڑے کی شادی کا فوٹو شوٹ ہے لیکن یہ درست نہیں یہ تصویر مردوں کے حقوق کے لیے چلنے والی ایک سوشل میڈیا مہم کا حصہ ہے۔

یہ مہم اسلام آباد میں واقع نیفٹی سفیر نامی ایڈ ایجنسی کی جانب سے لانچ کی گئی ہے اور اس ایڈ ایجنسی کے مالک عثمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مہم جہیز کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے جواب میں بنائی گئی ہے جس کا مقصد ان معاشرتی رویوں کو سامنے لانا ہے جس کا سامنا مردوں کو ہوتا ہے لیکن ان پر کوئی بات نہیں کرتا۔

اس مہم کو ڈیزائن کرنے والی سدرۃ المنتہیٰ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی بات ہوتی ہے تو خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ لیکن مردوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے متعلق سوشل میڈیا پر زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ اس لیے ہم نے اس مہم کے ذریعے ان ناجائز توقعات کے خلاف آگہی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا سامنا اکثر مردوں کو کرنا پڑتا ہے‘۔

جب کوئی مرد شادی کی عمر کو پہنچتا ہے اور وہ خود یا اس کے گھر والے شادی کے لیے کسی اچھی لڑکی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو سب سے پہلا سوال یہی سننے کو ملتا ہے کہ ’لڑکا کتنا کماتا ہے اور اس کی تنخواہ کتنی ہے؟‘۔ وہ کہتی ہیں کہ جب جہیز کے مطالبات کو برا کہا جاتا ہیں تو پھر لڑکوں سے ’ویل سیٹل ہونے‘یعنی اچھی تنخواہ، اپنی گاڑی اور گھر کے مطالبے کو برا کیوں نہیں سمجھا جاتا؟

سدرہ نے کہا کہ اس مہم سے قبل اس سلسلے میں انھوں نے متعدد افراد سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ شادیوں میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ایسے ہی مطالبات اور توقعات ہیں۔ سدرہ نے تنخواہ ’ڈیڑھ لاکھ‘لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جب اس سے متعلق مختلف مردوں سے بات کی تو انھیں یہی بتایا گیا کہ وہ جب بھی رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو لڑکی والوں کا یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ لڑکے کی تنخواہ کم سے کم ڈیڑھ لاکھ ہو۔

ڈیڑھ لاکھ تنخواہ کی مانگ بمقابلہ جہیز کا مطالبہ
لیکن جب اس مہم کی خالق سدرہ سے سوال کیا گیا کہ کیا لڑکی یا اس کے گھر والوں کی جانب سے یہ توقع کرنا کہ اس کا شوہر اس قابل ہو کہ وہ لڑکی کی تمام ضروریات کا خیال رکھ سکے غلط ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ کرنا غلط نہیں لیکن اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جس کی بنیاد پر شادی کا فیصلہ کرنا چاہیے، جیسا کہ لڑکے کا کردار اور اس کی سوچ کی بھی اتنی ہی اہمیت ہونی چاہیے۔

آخر مردوں کے حقوق کا یہ مطالبہ ہے کس سے؟
خواتین کے حقوق کی تحریک ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اسلام آباد کی صدر ہدیٰ بھرکری کا کہنا ہے کہ جہیز کے مطالبے کا موازنہ مرد کی تنخواہ سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مرد کی سمجھی جاتی ہے اور اس لیے اکثر مرد اپنے گھر کی خواتین کو نوکری کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ تو ایسے میں اگر کوئی لڑکی یا اس کے گھر والے شادی سے پہلے یہ اُمید کرتے ہیں کہ لڑکا کم سے کم اتنا تو کماتا ہو کہ وہ لڑکی، اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کا خیال رکھ سکے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے‘۔

ہدیٰ کے مطابق جہیز کا مطالبہ ان تمام توقعات کے علاوہ ہے جو رشتہ ڈھونتے وقت لڑکے کے گھر والوں کی ہوتی ہیں، جیسا کہ لڑکی کم عمر ہو، گوری رنگت، گھریلو مزاج، اور گھر کے کام میں ماہر وغیرہ وغیرہ۔ ہدیٰ کا کہنا ہے کہ انھیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مردوں کی تنخواہ کی یہ شکایت ہے کس سے

اپنا تبصرہ لکھیں