dr zarqa naseem

منڈی بہائوالدین میں دیکھا ہم نے شاتک

خاموش رہ کر بہت کچھ دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں پھر قلم کو اپنی زبان بنا کر تحرہر سے بیان کرتی ہوں

شاتک ! یہ لفظ پہلی بار محترم منشا قاضی کے منہ سے سنا جب محترم وحید کے گھر محترم حمید بلند سے پہلی ملاقات ہوئی تھی یہ لفظ میرے لیئے نیا تھا تب اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ شاتک کیا ہے ؟ منڈی بھاؤ الدین جانے کا اتفاق ہوا یہ اتفاق تھا یا اللہ کی طرف سے بلاوہ یہ وہی جانتا ہے جس کے ہاتھ میں ہم سب کی ڈور ہے ہم تو محترم عبدالحمید بلند کے مہمان تھے یہ علم نہ تھا کہ یہ خاندان اپنی مثال آپ ہے منشاقاضی بابا نے حمید صاحب سے کہا ’’شاتک دی سناؤ‘ ‘ حمید صاحب نے کہا ’’چل کے ویکھ لو‘‘ اردو کیساتھ پنجابی اپنا ہی رنگ دیتی ہے اور ہم چل پڑے شاتک کی طرف یہ لفظ اب تین چار بار سن چکی تھی اسے جاننا چاہتی تھی.

منڈی بہائوالدین کے ڈاکٹرز کے فون نمبرز

آخر شاتک ہے کیا ؟ یہ سب دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی جیسے جیسے شاتک کو دیکھ رہی تھی سوچ میں ڈوب رہی تھی یہ سب کیا ہے میرے اللہ یہ انسان اللہ والے ہیں جو خاموش خدمتگار ہیں کبھی انکے منہ سے نہیں سنا کہ ہم یہ کر رہے ہیں یہ تو تیرے بندے تیرے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں تیرے ساتھ کام کر رہے ہیں محترم وحید سے خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا آپ نے تو کبھی ذکر تک نہ کیا جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پہ لاتے ہوئے بولے زرقا یہ باتیں بتائی نہیں جاتی اب آپ آگئی ہو تو دیکھ رہی ہو یہ تو جانتی تھی کہ آپ خدمت خلق کا نہ صرف جذبہ رکھتے ہیں عملاً بھی پورا کرتے ہیں محترم حمید سے پوچھا شاتک کے معنی کیا ہیں ۔تو قرآن کا ترجمہ ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایکدوسرے کے ہاتھ ہو جاؤ‘‘ سناتے ہوئے ’’آئین‘‘ کتابچہ میرے ہاتھ میں تھما دیا ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ پہلا صفحہ اور پیش لفظ
شاتک ! جس کی بنیاد ان چار لفظوں سے بنی ہے

ش۔۔۔ شفقت
ا۔۔۔ احترام
ت۔۔۔ تڑپ
ک۔۔۔ کردار

شفقت سے احترام، احترام سے تڑپ اور تڑپ سے کردار بنتا ہے۔ کیا خوبصورت تخیل و عمل اب ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے ایک کے بعد ایک انکشاف ہو رہا تھا ڈائلاسز سینٹر، زچہ بچہ، فیزیو تھراپی سینٹر، ڈسپنسری، ٹرینگ سینٹر، قرآن کی تعلیم درس گاہ۔ شاتک کو منڈی بہاؤالدین کیلئے وجود میں لایا گیا ہے جو لوگ اپنے گھر شہر گاؤں ملک سے پیار کرتے ہیں اللہ انھیں پسند فرماتا ہے اگر ہر شہر گاؤں قصبہ گلی محلہ کوچہ کے لوگوں کی یہ سوچ ہو جائے تو ہم دنیا کو فتح کر لیں کیونکہ یہ وہ طریقہ ہے جو اسلام کے عین مطابق ہے اللہ رب العزت نے قرآن میں واضح کہا ہے ’’جو اپنے کا نہیں میں اس کا نہیں‘‘۔یہ شعر بھی اسی کی ترجمانی کرتا ہے :

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہی بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

اب کچھ کچھ جان گئے ہوں شاتک نام ہے ملکر چلنے کا اس خلوص کا فکری نظر کا کہ جس میں ہم اپنی آمدنی سے دس فی صد اللہ کی راہ میں نکالیں اور ملکر اپنے علاقے شہر گھر کو سجائیں اسے عین اسلام کیمطابق ڈھالا گیا ہے 1959ء میں جمعۃالمبارک کی سعد ساعتوں میں چند دوست باتیں کر رہے تھے ایک بولا کیوں نہ ہم سب اپنے اپنے گھر میں مٹی کے برتن میں تھوڑا تھوڑا آٹا جمع کرنا شروع کریں تھوڑے تھوڑے پیسے الگ جمع کریں اور کسی مستحق کو دے دیا کریں سب نے خوشی خوشی قبول کیا یہ سوچ منجانب اللہ تھی اللہ والوں کے لئے اور عمل شروع ہوا دیکھتے ہی دیکھتے یہ نیک تخیل و عمل چھانے لگا شاتک کے ملازمین کی تنخواہ و فنڈ یہ سب بڑے احسن طریقہ سے مرتب کیا گیا ہے

اسکے صدر محترم عبدالحمید بلند ہیں جنکا پورا گھرانہ اس عمل میں پیش پیش ہے یہ کیسے لوگ ہیں خود کو آشکار بھی نہ کیا راقمہ نے محسوس کیا اسے منظر۔ عام ہونا چاہیے تاکہ لوگ اس عمل کیطرف رغبت کریں یہ وہ طریقہ ہے جو عین اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عمل میں لایا گیا ہے جس طرح سے محترم حمید بلند اور وحید صاحب عمر کے اس حصہ میں ہمیں یہ سب دکھا رہے تھے ہمراہ آپ کے صاحبزادے اور شاتک کے کارکن ظفر حمید کے اٹھنے والے قدم آپ کے جذبات کی کیفیت بتا رہی تھی یہ سب انسان دوست ہیں ملکر چلنے والے ہاتھ میں ہاتھ اور ایکدوسرے کا ساتھ پھر منزل آسان ہے شاتک کے آفس میں اور ہستیوں سے بھی ملاقات ہوئی

ان میں شاتک کے بڑے اور پرانے ڈونر ایڈووکیٹ چودھری صفدر صاحب کی ذات نے بھی متاثر کیا سٹاف نرسیں ڈاکٹرز آفس بوائے تمام ملازمین سب کی محنت انکی عظمت کو ظاہر کر رہی تھی احباب یہی تو ہے اصل زندگی اپنی راہ خود بنانی اور منزل کو پانا شاتک عین اسلام کے مطابق ہے تبھی تو 1959ء سے ابتک چل رہا ہے اب یہ مزید بڑھنا چاہتا ہے دن بدن کی بڑھتی آبادی کا تقاضہ ہے اسمیں مزید اللہ والے شامل ہوں شائد اسی لئے اللہ ہمیں وہاں لیکر گئے کہ ہم انکی آواز بنیں جو خاموش خدمتگار ہیں ہم سب کو اسکا حصہ بننا ہے اور اسی ڈگر پر چلنا ہے تاکہ سفر آخرت آسان ہو سکے آمین۔

dr zarqa naseem

اپنا تبصرہ لکھیں