mandi bahauddin firing

بلوچستان: نوشکی میں ایرانی زائرین کی بس پر فائرنگ، 9 افراد شہید

بلوچستان: نوشکی میں ایرانی زائرین کی بس پر فائرنگ، نامعلوم افراد نے سب مسافروں کو بس سے نکال کر تھوڑے فاصلے پر کھڑے کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ 9 افراد شہید، صرف 1 مسافر زندہ بچ گیا۔ ’سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہیں وہ باہر آ جائیں‘۔

منڈی بہاؤالدین کے علاقے چک فتح شاہ کے سات لڑکے 27 رمضان کو ایران جانے کے لیے گھروں سے نکلے اور اب ان میں سے صرف ایک زندہ ہے۔ زندہ بچ جانے والا زاہد عمران بلوچستان کے ضلع نوشکی میں مسافر بس پر حملے کا عینی شاہد ہے اور بس میں موجود تھا جب مسلح افراد نے مسافر بس سے مسافروں کو اتار کر نو افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ‘میں بس میں سو رہا تھا کہ اچانک آواز آئی، سب اپنے شناختی کارڈ نکال لیں اور جو پنجابی ہیں وہ باہر نکل آئیں’۔

منڈی بہاءالدین سے اغوا ہونے والا شخص 8 ماہ بعد لاڑکانہ سے بازیاب

ذرائع کے مطابق نوشکی واقعے میں جاں بحق ہونے والے 6 افراد کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے تھا جب کہ ساجد عمران، مزمل حسین، مظہراقبال منڈی بہاؤالدین کے رہائشی تھے۔ محمد ابوبکر، محمد قاسم، تنزیل جاوید بھی منڈی بہاؤالدین کے رہائشی تھے۔ واثق فاروق وزیر آباد، جاوید شہزاد افضل پور، رانا شاہ زیب گوجرانوالہ کا رہائشی تھا۔

ایس ایس پی نوشکی کے مطابق ان نامعلوم حملہ آوروں نے دوسری گاڑی پر بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نوشکی سے تعلق رکھنے والے دو افراد جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ اس طرح گزشتہ روز پیش آنے والے دو مختلف واقعات میں جاں بحق افراد کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔کوئٹہ کے سول ہسپتال کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کی عمریں 25 سال کے لگ بھگ تھیں۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

حملے میں بچ جانے والے زاہد عمران نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ہم 27 رمضان کو منڈی بہاؤالدین سے نکلے تھے۔ مختلف مقامات پر رکنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ اب ہمیں تفتان لے جایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ منڈی بہاؤالدین سے بلوچستان کا سفر طویل تھا اور مسافر تھکن کے باعث بس میں ہی سو رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بس میں سوار مسلح افراد نے اونچی آواز میں کہا کہ ‘جو پنجابی ہیں وہ باہر آجائیں، ایک دو لڑکے اٹھ گئے لیکن باقی وہیں بیٹھے رہے، جس پر مسلح افراد سب کے شناختی کارڈ دیکھنے لگے’۔ زاہد عمران کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے اسے بھی بس سے اتار لیا لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ بس سے اترنے کے بعد دیکھا کہ مسلح افراد کسی سے بات کر رہے ہیں اور اسی وقت میں نے موقع غنیمت جانا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ پھر میں خاموش بیٹھا سوچتا رہا کہ آگے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ میں کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا کہ اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں اور اس کے بعد بس بھی چلی گئی۔

اس بس کے ایک اور مسافر نواز خان کا کہنا ہے کہ ان کے اردگرد صوبہ پنجاب کے اور بھی لوگ موجود تھے لیکن مسلح افراد نے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ کوئٹہ سے آنے والے مسافروں کا کہنا ہے کہ ‘شاید یہ اس لیے تھا کہ ان کے ساتھ خواتین اور بچے تھے۔ لیکن جو لوگ اکیلے تھے، جن کے ساتھ عورتیں اور بچے نہیں تھے، انہیں نہیں بخشا گیا۔ ان کے مطابق فائرنگ کی آواز سن کر ڈرائیور نے بس کو تیز رفتاری سے بھگایا اور اسے تھانے لے گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں