Government employees use 34 crore units of free electricity annually, document

فی یونٹ بجلی کی اصل قیمت صرف 7 روپے ہے لیکن عوام کو 45 روپے میں فروخت کی جاتی ہے

نیپرا کی جانب سے عوام کو مہنگی ترین بجلی فروخت کرنے کے حوالے سے چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فی یونٹ بجلی کی اصل قیمت صرف 7 روپے ہے لیکن عوام کو 45 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے رواں سال کے لیے توانائی کے شعبے کی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ میں بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے چند دلچسپ انکشافات کیے گئے ہیں۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے انکشاف کیا ہے کہ 7 روپے 62 پیسے فی یونٹ کے حساب سے پیدا ہونے والی بجلی عوام کو 7 قسم کے مختلف ٹیکسز شامل کرنے کے بعد 45 روپے میں فراہم کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کی قیمت میں 15.28 روپے فی یونٹ کے مختلف ٹیکسز شامل ہیں۔ نئے سال کے لیے بجلی کے بل میں 67 پیسے فی یونٹ بھی شامل ہیں۔

صارفین کو اپنے بجلی کے بلوں میں 3.10 روپے کا ڈسکاؤنٹ مارجن بھی ادا کرنا ہوگا۔ بجلی کے بلوں میں ایک پیسے فی یونٹ کی ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے۔ صارفین ٹرانسمیشن چارجز کے طور پر ایک روپیہ 37 پیسے فی یونٹ بھی ادا کرتے ہیں۔ ایک روپیہ 17 پیسے فی یونٹ صلاحیت کی ادائیگی کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔

نیپرا کی رپورٹ کے مطابق بجلی کی خالص قیمت صرف 7 روپے 62 پیسے فی یونٹ ہے تاہم 7 قسم کے چارجز، ٹیکسز، مارجن اور ایڈجسٹمنٹ کی ادائیگی کے بعد ایک بلب 45 روپے فی یونٹ میں جلتا ہے۔

نیپرا کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاور کمپنیاں نقصانات کم کرنے اور وصولیوں کو بڑھانے میں ناکام رہیں۔ نیپرا کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے خسارے اور وصولیوں میں کمی کے باعث ایک سال میں 590 ارب 51 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

رواں سال میں پاور کمپنیوں کا خسارہ 18.31 فیصد رہا جبکہ ڈسکوز کی وصولی کی شرح 92.44 فیصد رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں ہونے والے نقصانات کے باعث گردشی قرضے میں 276 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ وصولیوں میں کمی کے باعث گردشی قرضے میں 314 ارب 51 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔

نیپرا کے مطابق مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین نے اوسطاً 33.88 فیصد بجلی استعمال کی۔ باقی 66.12 فیصد غیر استعمال شدہ بجلی بھی صارفین نے ادا نہیں کی۔ نیپرا نے کہا کہ فیڈرز بند کرنے کے بجائے نادہندگان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پاور سپلائی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک سمیت ڈسکوز کے واجبات 2320 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ سسٹم کی نا اہلی کے باعث ٹیکسز، سرچارجز اور کراس سبسڈیز کا بوجھ بجلی صارفین پر ڈال دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسوں، سرچارجز، فیسوں، ڈیوٹیوں کی وجہ سے صارفین کے لیے ادائیگی کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ بجلی کمپنیوں کا کنٹرول نجی شعبے کے حوالے کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں