harappan civilization in urdu pdf

ہڑپا ایک تہذیب (تحریر: محمد ندیم، ڈھوک کاسب)

ہڑپا ایک تہذیب

(اس تحریر کے لیے مختلف آثار قدیمہ کی سیر کے بعد لکھاری کا تجزیہ اور انٹرنیٹ سے مدد لی گئی)

ہڑپا صرف ایک شہر کا نام ہی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کا نام ہے۔ یہاں پر ملنے والے آثار سے شہر کے جو خدو خال سامنے آئے ہیں۔ غلہ سٹور کرنے کے لیے شہر میں الگ حصہ بنایا گیا تھا ۔ مزدوروں کے لیے الگ حصہ مختص تھا۔ امراء شہر اپنا الگ انداز اپنائے ہوئے تھے۔۔

مردے دفن کیے جاتے تھے قبرستان شہر کے زیریں جانب موجود تھا۔۔۔ یہاں پر بسنے والے انسانوں کے قد کاٹھ موجودہ زمانے کے انسانوں کے برابر تھے۔ پتھروں پر بنی شطرنج ۔ مٹی سے بنے لڈو کے دانے ۔ ہڈیوں اور مٹی سے بنے زیورات

خواتین میں بناؤ سنگھار
بچوں کے کھلونے ۔
مورتیاں جن کو پوجا جاتا تھا۔

ہڑپا کی تہذیب میں سکے نہیں ملے بلکہ چیزوں کے بدلے چیزیں لینے کا نظام چلایا جاتا تھا ۔ مردوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اس لیے ان کے برتن بھی دفن کر دیا جاتا تھا۔خاص طور مر جانے والے بچوں کو کسی برتن میں رکھ کر ہی دفن کیا جاتا تھا۔

ہڑپہ کی تہذیب پاکستان میں وادیِ سندھ کے شہروں ہڑپہ، موہنجو دڑو اور کوٹ دیجی سے لے کر انڈیا میں گھگر ہاکڑا دریا کی وادی میں واقع بِھڑانا، کالی بنگن اور حصار تک پھیلی ہوئی تھی اور چولستان میں اس کے آثار قلعہ دراوڑ کے پاس ملتے ہیں۔ ہڑپہ کی تہذیب پانچ ہزار سال نہیں بلکہ نو ہزار سال پرانی ہے اور یہ کہ اس کے زوال کی براہِ راست وجہ موسم کی تبدیلی نہیں تھی۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اپنی نوعیت کی اس اولین تحقیق میں بدلتے ہوئے موسموں اور ثقافتی مظاہروں کا تقابل کیا گیا جس سے ظاہر ہوا کہ صرف موسم کی تبدیلی اور مون سون کی کمی ہی اس تہذیب کے زوال کا باعث نہیں تھی بلکہ اس میں فصلیں اگانے کی ترتیب میں تبدیلی کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔

یہ تہذیب اس زمانے کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے مزین تھی اور اس کے باسی زراعت، شہری منصوبہ بندی، تجارت، برتن سازی اور مجسمہ سازی کے ماہر تھے۔ اس کے علاوہ وہ تجارت کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے میسوپوٹیمیا اور وسطی ایشیا سے منسلک تھے۔ یہ تہذیب تقریباً نو ہزار سال پہلے آباد ہوئی اور آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل اس تہذیب کا خاتمہ ہو گیا، شہر اجڑ گئے، تحریر کے نمونے غائب ہو گئے، اور زراعت کا نظام درہم برہم ہو گیا۔

یہ تمام علاقے مون سون کی موسمی نظام کے تحت آتے ہیں لیکن آج کل یہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ بارشوں میں کمی اس تہذیب کے یک لخت انہدام کا موجب بنی۔ لیکن بارشیں یہاں مسلسل ہوتی رہیں۔اس تہذیب کا خاتمہ بارشوں کی کمی وجہ نا تھا۔ یہاں سے ملنے والے انسانی یا حیوانی ڈھانچوں سے ملنے والی آکسیجن کے آثار ہیں جو بارش کے باعث ہڈیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔۔۔

ان کی تباہی کا اصل موجب ابھی تک معلوم نہیں کہیں بات کی جاتی ہے بیرونی حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کو بھی رد کیا جا سکتا ہے کیونکہ اچانک اتنی بڑی آبادیاں جہاں انسانوں کو سنبھلنے کا موقع تک نا ملے ان کا جہاں تھے جیسے تھے کی حالت میں دفن ہوجانا قدرتی آفت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے۔ان کا رہائشی نظام بحیرہ عرب کی ہواؤں کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ جو ان رہائشی علاقوں سے دور تھا۔ جس کی وجہ سے موسمی حالات کا مقابلہ نا کیا جا سکا۔ ابھی تک پاکستان میں اس پر تحقیق ہونا باقی ہے۔ جو کہ عدم توجہی کا شکار ہے ۔ انگریز حکومت جہاں کام چھوڑ کر جاچکی اس کے آگے مزید کام نہیں کیا گیا۔

حالانکہ ہڑپا آثار قدیمہ میں تقریباً 80 فیصد کام ہونا باقی ہے۔ اور ملک پاکستان میں سینکڑوں ایسے قدیمی شہروں کے کھنڈرات موجود ہیں جو اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ کیونکہ گھروں میں بھرتی ڈالنے کے لیے یہان سے مٹی اٹھا اٹھا ان تہذیبوں کو دفن کر کے اوپر فرش ڈالا جا رہا ہے۔ … خدا حافظ آثار قدیمہ !!

تحریر: محمد ندیم اختر
nadvad@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں