دُبئی کے فلیٹس میں ہونے والی آتشزدگی نے درجنوں پاکستانیوں کو دربدر کر ڈالا

بُر دُبئی کے علاقے میں تین فلیٹس میں آگ لگنے سے پاکستانیوں کی اہم دستاویزات، سامان اور جمع پونجی ضائع ہو گئی، ٹھکانے کی تلاش میں پریشان پھر رہے ہیں

دُبئی( تازہ ترین اخبار۔12 جنوری2021ء) چند روز قبل بُر دُبئی ے علاقے مینا بازار کی مشہور ریوولی شو روم بلڈنگ کی بالائی منزل پر رات کے وقت اچانک آگ بھڑک اُٹھی تھی جس کے نتیجے میں تین فلیٹس اور ان میں موجود تمام سامان مکمل طور پر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔ ان تین فلیٹس میں 60 کے قریب افراد رہائش پذیر تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا جو اس وقت بے گھر ہو کر دربدر پھر رہے ہیں۔

اس آتشزدگی کے نتیجے میں ان افراد کے پاسپورٹس، اماراتی آئی ڈی، تعلیمی اسناد، ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر قیمتی دستاویزات کے علاوہ کپڑے، جوتے وغیرہ بھی جل کر راکھ میں بدل گئے۔ جبکہ کچھ افراد کی تمام تر نقد رقم بھی آگ کی لپیٹ میں آ کر ضائع ہو گئی۔ خلیج ٹائمز کے مطابق ان تینوں فلیٹس میں 20، 20 افراد رہائش پذیر تھے۔ جن میں سے ایک پاکستانی عمران شیخ بھی ہے جو ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی میں ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہے۔

انتہائی دُکھی لہجے میں عمران شیخ نے بتایا ”اس حادثے کی وجہ سے میرا پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، RTA کارڈ، اماراتی آئی ڈی اور دیگر قیمتی دستاویزات جل گئی ہیں۔ ان کے بغیر میں کوئی بھی ملازمت نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ اپنی موجودہ ملازمت بھی جاری نہیں رکھ سکتا کیونکہ ڈرائیونگ کے لیے ہر وقت ڈرائیونگ لائسنس کا پاس ہونا ضروری ہے۔ مجھے باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی، بلکہ روزانہ کے حساب سے کمیشن دیا جاتا ہے۔

کام نہ کرنے کی صورت میں رقم نہیں ملے گی تو میرا گزارہ کیسے ہو گا۔“شیخ نے بتایا کہ اس حادثے کے نتیجے میں تمام افراد اپنی جانیں بچا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، تاہم ایک 45 سالہ کارکن بلندی سے گرنے کی وجہ سے اپنی کئی ہڈیاں تڑوا بیٹھا ہے اور اس وقت راشد ہسپتال میں زیر علاج ہے جسے اب چھ ماہ تک بیڈ پر ہی رہنا ہو گا۔ اس کارکن نے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر پانی کے پائپس کے ذریعے نیچے اُترنے کی کوشش کی تھی، تاہم گرفت مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے پھسل کر گراؤنڈ فلو ر آ گرا تھا۔

یہ آگ ایک فلیٹ کے داخلی دروازے کے پاس لگی جو گتے کے کارٹنز میں رکھے آتش گیر مواد کے باعث زیادہ تیزی سے پھیل گئی تھی۔ ایک اور کارکن محمد انور نے بتایا کہ اس کے فلیٹ میں صرف چار افراد موجود تھے، باقی اپنی ڈیوٹیوں پر گئے ہوئے تھے۔ رات ساڑھے آٹھ بجے اچانک آگ بھڑک اُٹھی، تو انہوں نے باہر نکلنے کے لیے اپنے کمبلوں کو گیلا کر کے خود پر لپیٹ لیا تاکہ آگ کم سے کم اثر کرے۔ کمروں میں رکھے کپڑوں کی وجہ سے بھی آگ زیادہ تیزی سے پھیلی تھی۔ محمد انور کا مزید کہنا تھا کہ قیمتی دستاویزات کے ضائع ہونے کا بہت زیادہ افسوس ہے کیونکہ ان کے دوبارہ بنوانے پر وقت بھی زیادہ لگے گا اور اچھی خاصی رقم بھی خرچ کرنا ہو گی

اپنا تبصرہ لکھیں