قبائلی اضلاع میں ’غگ‘ کیسےلڑکیوں کی زندگی تباہ کررہی ہے

خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ’زبردستی شادی‘ کیلئے بنیادی انسانی حقوق کی منافی رسم ’غگ‘ پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا۔ ایک ماہ کے دوران جنوبی وزیرستان میں ’غگ‘ کے دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

تاریخ دان اباسین یوسفزئی نے سماء ٹی وی کو بتایا کہ ’غگ‘ پشو میں پکار یا للکار کو کہتے ہيں۔ اس رسم مین لڑکے کو کوئی رشتے دار لڑکی پسند آجائے تو وہ اس کے گھر کے سامنے جاکر فائرنگ کرکے بتاديتا ہے کہ يہ ميری ہے۔ اس کے بعد لڑکی کا رشتہ جب آتا ہے تو سب لوگ کہتے ہیں یہ تو اس کے نام ہے جو دروازے پر فائرنگ کرکے گیا ہے۔

سماجی کارکن شوانہ شاہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ بندہ اس سے شادی کرتا ہے یا نہیں کرتا، لڑکی اس کے نام سے بیٹھی رہ جاتی ہے۔ اباسین یوسفزئی کاکہنا ہے کہ بڑے بوڑھے مجبوراً اس لڑکی کو فائرنگ کرنے والے کے گھر بیاہتے ہیں کیون کہ اس لڑکی کا مستقبل مشکوک ہوجاتا ہے۔ یہ رسم پرایوں میں نہیں ہوتی۔ رشتہ داروں میں ہوتی اور اس کا مطلب دشمنی کا آغاز ہے۔

لڑکی کو رسم کی بھینٹ چڑھا کر دشمنی نکالی جاتی ہے اور لڑکی والوں سے اپنی شرائط پر معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ شوانہ شاہ کے مطابق ایک حیات آباد کی رہائشی لڑکی کے خاندان میں رشتے کیلئے تنازع چل رہا تھا اور لڑکے نے لڑکی کے گھر کے سامنے جاکر فائرنگ کردی۔ خیبرپختونخوا حکومت نے2013 میں قانون سازی کے ذریعے اس رسم کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود شوانہ شاہ کے مطابق پچھلے سال وزیرستان سے چار کیسز رپورٹ ہوئے مگر گراس روٹ لیول پر دیکھیں تو یہ اب بھی چل رہا ہے کیونکہ آگاہی نہیں ہے۔

ڈاکٹرخالد مفتی کے مطابق دو فیملیز میں نے دیکھی جنہوں نے غگ رسم کی وجہ سے ہجرت کرلی۔ وہاں سے نقل مکانی کرکے پشاور آئے اور پولیس کو اطلاع دی کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے۔ ایس ایچ او منصور ’غگ ایکٹ‘ کے تحت 16 جنوری کو پرچہ درج کیا گیا تھا۔ اس میں نامزد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ بچی کی رضا مندی کے بغیر یا والی کی رضا مندی کے بغیر شادی کا اعلان کیا گیا اور باقاعدہ کارڈ چھپوا کر ہال بک کیا گیا تھا۔ شوانہ کا کہنا ہے کہ ’غگ ایکٹ‘ کے تحت اس جرم کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال ہے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہے۔

عالم دین کا کہنا ہے کہ مفتی زبیر کا کہنا ہے کہ غگ رسم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کو اس کے خلاف سخت اقدام اُٹھانا چاہیے۔ صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کو کارروائی کی ہدایت کردی گئی ہے۔ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائیں گے۔ انہوں نے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی آواز اٹھانے کی اپیل کردی

اپنا تبصرہ لکھیں