کچھ عرصہ پہلے سرکاری سکولوں کے حوالے سے ایک عمومی پوسٹ لگائی تھی کہ مختلف وجوہات کی بنا پر نصاب ختم نہی ہو پاتا۔ اس پر کچھ معزز اساتذہ کرام نے غصے کا اظہار بھی کیا تھا۔ اب نہم کلاس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
منڈی بہاءالدین ( ایم.بی.ڈین نیوز 20 ستمبر 2022) بکن سرکاری سکول 92 میں سے 11 پاس، ہیلاں 145 میں سے 19 پاس، ملکوال 347 میں سے 85 پاس، سرسید ہائی سکول 266 میں سے 39 پاس، پائلٹ سکول پھالیہ437 میں 98 پاس، سیدا شریف 74 میں 9 پاس، اسلامیہ سکول پھالیہ 90 میں سے 12 پاس، آہلہ 56 میں 4 پاس، چورنڈ 70 میں 6 پاس، چک فتح شاہ 14 میں سے کوئی پاس نہی ہوا۔
اسی طرح کے ملتے جلتے رزلٹ سب کے ہیں سوائے چند ایک چھوڑ کر۔ سرکاری سکول کو ایک مثالی ہونا چاہیے۔ لوگ کیوں پرائیویٹ میں جائیں؟ اگر والدین کو یقین ہو کہ ہمارا بچہ صحیح جگہ پہ جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ بڑے بڑے سرکاری ملازم سرکاری ہسپتال میں علاج کروانا پسند نہی کرتے۔
سرکاری استاد و پروفیسر اپنے بچے سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھانا پسند نہی کرتے۔ اگر سرکاری سکول میں بچے داخل ہوں تو پڑھنا انھوں نے اکیڈمی میں ہی ہوتا ہے۔ تو کیسے ادارے ٹھیک ہونگے؟ اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں
چند ایک سرکاری سکولوں کو چھوڑ کر باقی سرکاری سکولز کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ نتیجہ 11 فیصد، 9 فیصد، 7 فیصد ، حتی کہ صفر فیصد بھی آیا ہے۔ سرکاری سکولوں کو بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سکولز کا رزلٹ بھی چند ایک کو چھوڑ کر بہت آئیڈیل نہی ہے۔ چند ایک بڑے برانڈ کے سکول بڑے بڑے بینرز ٹاپرز کے لگا دیتے ہیں۔ اور یہ نہی بتایا جاتا کہ فیل کتنے ہوئے ہیں۔
بہرحال رزلٹ کی پرسینٹیج آپ کے سامنے ہے۔ آپ اپنے اپنے علاقے کے سکول انتظامیہ پر بہتری کے لیے زور دے سکتے ہیں۔ چاہے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ۔