میانمار کی فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی تصدیق کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث ہوئی۔ آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ 1 سال کیلئے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہے۔
فوجی اعلان سے قبل ہی دارالحکومت نیپئٹا اور مرکزی شہر ینگون کی سڑکوں پر فوجی موجود تھے، جب کہ اہم شہروں میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی گئی ہے۔ میانمار کے ریاستی نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کا کہنا ہے کہ انھیں تکنیکی مسائل کا سامنا ہے اور وہ آف ایئر ہے۔ سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والی فوجی سربراہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپ رہے ہیں۔ وزارئے اعلیٰ کے خاندانوں کے مطابق فوجی اہلکاروں نے متعدد علاقوں میں ان کے گھروں کا بھی دورہ کیا اور انھیں لے کر چلے گئے ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ نے آج بروز پیر یکم فروری کو نو منتخب ایوان زیریں نے پہلا اجلاس بھی کرنا تھا، تاہم فوج نے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 2020 میں میانمار میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کیلئے درکار نشستیں حاصل کرلی تھیں، تاہم فوج انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کررہی تھی۔ میانمار جسے پہلے برما بھی کہا جاتا ہے، یہاں سال 2011 تک فوج کی حکومت رہی ہے۔
میانمار میں فوجی مداخلت پر امریکا اور آسٹریلیا کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جب کہ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے