امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان سے انخلاء کو اسٹريٹیجک ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے صدر بائيڈن کو افغانستان ميں ڈھائی تین ہزار فوجی برقرار رکھنے کا مشورہ ديا تھا جو نہیں مانا گیا۔
افغانستان سے انخلا کے معاملے پر امريکی فوجی قيادت نے سينيٹ کميٹی کو دوران بريفنگ بتایا کہ افغان مسئلے کے باضابطہ حل کے لیے وہاں امريکی فوجيوں کو رکھنا ضروری تھا۔ اس موقع پر ایک اور اہم امریکی جنرل ميکنزی نے بھی جنرل مارک ملی کی بات کی تائید کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ افغانستان سے ساری فوج نکال لینا درست فیصلہ نہیں تھا۔ چيئرمين جوائنٹ چيف آف اسٹاف امريکا جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ سن 2020 کے اواخر اور اس کے بعد بھی ميری رائے تھی کہ افغانستان میں 2500 سے 3500 تک فوجی رکھے جانے چاہئیں۔
بریفنگ کے موقع پر امریکی فوجی قیادت کو امريکی سينيٹرز کی جانب سے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ سينيٹر ڈين سلی ون نے سوال کيا کہ 18 اگست کو امريکی صدر نے ايک ٹی وی انٹرويو ميں عوام کو بتايا تھا کہ ان کے کسی بھی فوجی مشير نے افغانستان ميں رکنے کا مشورہ نہيں ديا کيا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟ اس پر جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہيں سنا جس پر سينيٹر ڈين سلی ون دوبارہ سوال کيا کہ کیا وہ جھوٹا بيان تھا؟ تاہم اس پر مارک ملی کا جواب تھا کہ وہ امريکی صدر کے بيان کو سچا يا جھوٹا نہيں کہیں گے۔
اس موقع پر سينيٹر ٹام کاٹن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب افغانستان سے انخلا پر آپ کی رائے نہيں لی گئی، آپ تو سب سے سينئر فوجی مشير ہيں اور اگر يہ سب سچ ہے تو آپ نے استعفیٰ کيوں نہيں ديا؟ اس سوال کے جواب میں چيئرمين جوائنٹ چيف آف اسٹاف امريکا کا کہنا تھا کہ ايک سينئر فوجی افسر کی حيثيت سے سياسي اقدام يا احتجاجاً مستعفی ہونا بہت سنجيدہ قدم ہوتا ہے جبکہ ان کی آئينی ذمے داری ميں قانونی اور فوجی مشورہ دينا شامل ہے۔
مارک ملی نے کہا کہ ضروری نہيں کہ صدر ان کے مشورے سے متفق ہوں، انہيں صرف اس وجہ سے ہمارے مشوروں پر عمل کا پابند نہيں بنايا جاسکتا کہ ہم فوجی جنرل ہيں اور اگر وہ محض اس وجہ سے استعفیٰ دے دیتے تو ایسا اقدام بغاوت کے مترادف ہوتا۔ جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ اس ملک ميں ايسا نہيں چل سکتا کہ فوجی جنرل يہ طے کريں کہ کن احکامات پر عمل ہوگا اور کن پر نہيں، يہ ہمارا کام ہی نہيں ہے۔
جنرل مارک ملی نے ايک سال کے دوران القاعدہ کے حملے کا خدشہ بھی ظاہر کيا تھا۔ ترجمان وائٹ ہاؤس جين ساکی کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں فوج مزيد رکھنے کا نتيجہ مزيد جنگ ہوتا، صدر کے سامنے کئی آپشن رکھے گئے تھے اور آخری فيصلہ کمانڈر انچيف کا ہی ہوتا ہے۔ ری پبليکنز سينٹر نے انتظاميہ کے نکتہ نظر کو مسترد کرتے ہوئے افغانستان سے انخلاء کو الميہ اور ڈراؤنا خواب قرار ديا
