منڈی بہاءالدین کی ضلعی انتظامیہ نے پریس کلب کی عمارت گرادی۔ پریس کلب کے صدر کے مطابق یہ کارروائی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کی گئی۔
منڈی بہاؤالدین پریس کلب کے صدر ظہیر خان کا کہنا تھا کہ کلب کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مسماری کا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا، انہدامی کارروائی اتوار4 بجے کی گئی۔پریس کلب کے صدر نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا اور جب یہ کارروائی ہوئی، ہم سب سوئے ہوئے تھے، ہم نے اس عمارت میں بہت پیسہ لگایا تھا اور ہمارا تمام ریکارڈ تباہ ہو چکا ہے۔
ظہیر خان کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے پریس کلب کے لیے نئی جگہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے اور انہوں نے گزشتہ رات اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر سے اس معاملے پر بات کی تھی۔ظہیر خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے فون پر بات کی اور انہوں نے مجھے کہا کہ پریشان نہ ہوں، ہم (نئی جگہ کے لیے) تمام انتظامات کریں گے، موجودہ عمارت کو گرانے کی کوئی بات نہیں ہوئی’۔
انہوں نے مزید کہا کہ پریس کلب سرکاری اراضی پر کرائے کی دو دکانوں میں قائم کیا گیا تھا۔ ظہیر خان نے کہا کہ ہمارے اردگرد کی دکانیں بھی مسمار کر دی گئیں اور مالکان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔
دریں اثنا، منڈی بہاءالدین کے ڈپٹی کمشنر فیصل سلیم نے کہا کہ انسداد تجاوزات مہم کے تحت کرائے پر لی گئی سرکاری دکانیں مسمار کی گئی ہیں۔سڑک کو چوڑا کرنے، ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بنانے کے لیے گزشتہ رات انسداد تجاوزات آپریشن میں تمام 24 دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر نے اس بات کی تردید کی کہ پریس کلب کے اراکین نے پہلے “پریس کلب کو منتقل کرنے” پر اتفاق کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ “کل ہم نے صحافیوں اور کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کی اور انہوں نے ایک نئی جگہ منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم عمارت کو گرا دیں گے اور کل انہیں ایک نئی جگہ فراہم کریں گے۔”
ڈپٹی کمشنر فیصل سلیم نے مزید کہا کہ ‘یہ پریس کلب نہیں تھا، صحافیوں نے اپنا پریس کلب 24 دکانوں میں سے دو میں بنا رکھا تھا جو سرکاری اراضی پر قائم تھیں، دکانداروں اور انتظامیہ کے درمیان کچھ عرصے سے قانونی چارہ جوئی چل رہی تھی کیونکہ انہوں نے کرایہ ادا نہیں کیا تھا۔’
