ذرائع کے مطابق ہیڈ رسول گیم ریزرو میں واقع نٹ ہاؤس اور ایریگیشن ریسٹ ہاؤس میں آٹھ گاڑیوں میں آنے والے مہمانوں نے ایک ہی شکار کے اجازت نامے کے تحت 400 سے زائد آبی پرندوں کا شکار کیا۔
سیو کلائمیٹ اینڈ نیچر کے سربراہ فہد ملک کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ کی کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ قانونی طور پر ایک ہی اجازت نامہ صرف 10 بطخوں کے شکار کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن یہاں قانون کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکنوں نے پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور ڈی جی وائلڈ لائف سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ کون بااثر لوگ ہیں جنہیں قانون شکنی کے لیے مفت پاس دیا گیا ہے؟محکمہ وائلڈ لائف کنزرویشن نے ایسے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ ایسے واقعات دوبارہ کیوں ہوتے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟
کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ کیس ہمارے شکار کے قوانین اور قومی پالیسیوں پر فوری نظرثانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ فہد ملک نے کہا کہ انہوں نے بارہا ان پالیسیوں کو مزید سخت اور شفاف بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
انہوں نے کہا، “میں محکمہ کے تمام ایماندار اور مخلص افسران اور ملازمین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کسی بھی غیر قانونی کام، ناانصافی یا سسٹم میں موجود خامیوں کے حوالے سے بلا خوف مجھ سے رابطہ کریں۔ بہت سے افسران پہلے ہی اپنے خدشات اور حقائق بتا رہے ہیں اور آپ کے تعاون سے بامعنی اصلاحات لانے میں مدد ملے گی۔”